مباھلہ

 

خلاصہ :

 

خداوندعالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ھے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ (ع) کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے»مباھلہ»کی دعوت دو اور کهو کہ وہ اپنے بچوں،عورتوں اور نفسو ںکو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوںکو عورتوں اور نفسں کو بلا لو پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے۔بغیر کھے یہ بات واضح ھے جب کہ مباھلہ سے مراد یہ نھیں کہ طرفین جمع هوں ،اور ایک دوسرے پر لعنت اور نفرین کریں اور پھر منتشر هو جائیں کیونکہ یہ عمل تو نتیجہ خیز نھیں ھے۔

متن:

 

بلکہ مراد یہ ھے کہ دعا او رنفرین عملی طور پر اپنا اثر ظاھر کرے اور جو جھوٹا هو فوراً عذاب میں گرفتار هو جائے۔
آیات میں مباھلہ کا نتیجہ تو بیان نھیں کیا گیا لیکن چونکہ یہ طریقہٴ کار منطق و استدلال کے غیر موثر هونے پر اختیار کیا گیا تھا اس لئے یہ خود اس بات کی دلیل ھے کہ مقصود صرف دعا نہ تھی بلکہ اس کا خاجی اثر پیش نظر تھا۔
مباھلہ کا مسئلہ عرب میں کبھی پیش نھیں آیا تھا،اور اس راستہ سے پیغمبر اکرم کو صدقت و ایمان کو اچھی سرح سمجھا جاسکتا تھا،کیسے ممکن ھے کہ جو شخص کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا هو وہ ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دی کہ آؤ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں،اس سے درخواست کریں اور دعا کریسیں کہ وہ جھوٹے کو رسو اکردے اور پھر یہ بھی کھے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ خوددیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ھے او رعذاب کرتا ھے۔
یہ مسلم ھے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطرناک معاملہ ھے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ هوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ هوا تو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ هوگا۔
کیسے ممکن ھے کہ ایک عقلمند اورسمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمینان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لئے تو کھا جاتا ھے کہ پیغمبراکرم کی طرف سے دعوت مباھلہ اپنے نتائج سے قطع نظر،آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان کی دلیل بھی ھے۔
اسلامی روایات میں ھے کہ»مباھلہ»کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مھلت چاھی تا کہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں۔ مشورہ کی یہ بات ان کی نفسیاتی حالت کی چغلی کھاتی ھے۔
بھر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے ما بین یہ طے پایاکہ اگر محمد شور وغل،مجمع اور دادوفریادکے ساتھ»مباھلہ»کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اورمباھلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نھیں ،جب بھی شوروغل کا سھارا لیا جائے گا اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں،بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جان لینا چاھیے کہ وہ خدا کے پیغمبرھیں اور اس صورت میں اس سے «مباھلہ»کرنے سے پرھیز کرنا چاھیے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطرناک ھے!۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباھلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین(ع) کو گود میں لئے حسن(ع) کا ھاتھ پکڑے اور علی (ع) اور فاطمہ(ع) کو ھمراہ لئے آپہنچے ھیں اور انھیں فرمارھے ھیں کہ جب میں دعاکروں ،تم آمین کہنا۔
عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتھائی پریشان هوئے اور مباھلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لئے تیار هوگئے اور اھل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ هوگئے ۔

عظمت اھل بیت کی ایک زندہ سند
شیعہ اورسنی مفسرین اور محدثین نے تصریح کی ھے کہ آیہٴ مباھلہ اھل بیت رسول علیھم السلام کی شان میں نازل هوئی ھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جن افراد کو اپنے ھمراہ وعدہ گاہ کی طرف لے گئے تھے وہ صرف ان کے بیٹے امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) ،ان کی بیٹی فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور حضرت علی (ع) تھے ۔ اس بناء پر آیت میں «ابنائنا «سے مراد صرف امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) ھیں۔»نسائنا»سے مراد جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا ھیں اور»انفسنا» سے مراد صرف حضرت علی (ع) ھیں۔
اس سلسلے میں بہت سی احادیث نقل هوئی ھیں۔ اھل سنت کے بعض مفسرین نے جوبہت ھی تعداد میں ھیں۔ اس سلسلے میں وارد هونے والی احادیث کا انکار کرنے کی کوشش کی ھے۔ مثلاًمولفِ»المنار»نے اس آیت کے ذیل میں کھا ھے:
«یہ تمام روایات شیعہ طریقوں سے مروی ھیں،ان کا مقصد معین ھے،انهوں نے ان احادیث کی نشرو اشاعت اور ترویج کی کوشش کی ھے۔ جس سے بہت سے علماء اھل سنت کو بھی اشتباہ هوگیا ھے»!!۔
لیکن اھل سنت کی بنیادی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے تو وہ نشاندھی کرتی ھیں کہ ان میں سے بہت سے طریقوں کا شیعوں یا ان کی کتابوں سے ھرگز کوئی تعلق نھیںھے اور اگر اھل سنت کے طریقوںسے مروی ان احادیث کا انکار کیا جائے تو ان کی باقی احادیث اورکتب بھی درجہٴ اعتبار سے گرجائیں گی۔
اس حقیقت کو زیادہ واضح کرنے کے لئے اھل سنت کے طریقوں سے کچھ روایات ھم یھاںپیش کریں گے۔
قاضی نوراللہ شوستری اپنی کتاب نفیس «احقاق الحق»[115]میں لکھتے ھیں:
«مفسرین اس مسئلے میں متفق ھیں کہ «ابنائنا»سے اس آیت میں امام حسن(ع) او رامام حسین(ع) مراد ھیں،»نسائنا»سے «حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا»اور»انفسنا»میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا گیا ھے»۔
اس کے بعد کتاب مذکور کے حاشیے پر تقریباً ساٹھ بزرگان اھل سنت کی فھرست دی گئی ھے جنهوں نے تصریح کی ھے کہ آیت مباھلہ اھل بیت رسول علیھم السلام کی شان میں نازل هوئی ھے۔[۱۱۶]
«غایه المرام» میں صحیح مسلم کے حوالے سے لکھا»:
«ایک روز معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے کھا:»
تم ابو تراب ( علی (ع)) کو سب وشتم کیوں نھیں کرتے۔وہ کہنے لگا۔
جب سے علی (ع) کے بارے میں پیغمبر کی کھی هوئی تین باتیں مجھے یاد آتی ھیں،میں نے اس کام سے صرف نظرکرلیا ھے۔ان میں سے ایک یہ تھی کہ جب آیت مباھلہ نازل هوئی تو پیغمبر نے فاطمہ(ع)،حسن(ع)،حسین(ع)،اور علی (ع) کو دعوت دی۔اس کے بعد فرمایا»اللھم ھٰوٴلاء اھلی»(یعنی خدایا! یہ میرے نزدیکی اور خواص ھیں)۔
تفسیر»کشاف»کے موٴلف اھل سنت کے بزرگوں میں سے ھیں۔ وہ اس آیت کے ذیل میں کہتے ھیں۔»یہ آیت اھل کساء کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے قوی ترین دلیل ھے»۔
شیعہ مفسرین،محدثین اور موٴرخین بھی سب کے سب اس آیت کے «اھل بیت «کی شان میں نازل هونے پر متفق ھیں چنانچہ»نورالثقلین» میں اس سلسلے میں بہت سی روایات نقل کی گئی ھیں۔ ان میں سے ایک کتاب»عیون اخبار الرضا»ھے۔ اس میں ایک مجلس مناظرہ کا حال بیان کیا گیا ھے،جو مامون نے اپنے دربار میں منعقد کی تھی۔
اس میں ھے کہ امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام نے فرمایا:
«خدا نے اپنے پاک بندوں کو آیت مباھلہ میں مشخص کردیا ھے اور اپنے پیغمبر کو حکم دیا ھے:
«فمن حاجک فیہ من بعد ما جاء ک من العلم فقل۔۔۔»
اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر ،علی (ع) ،فاطمہ(ع)،حسن(ع)،اور حسین(ع) کو اپنے ساتھ مباھلہ کے لئے لے گئے اور یہ ایسی خصوصیت اور اعزاز ھے کہ جس میں کوئی شخص اھل بیت علیھم السلام پر سبقت حاصل نھیں کرسکا اور یہ ایسی منزلت ھے جھاں تک کوئی شخص بھی نھیں پہنچ سکا اور یہ ایسا شرف ھے جسے ان سے پھلے کوئی حاصل نھیں کرسکا»۔
تفسیر»برھان»،»بحارالانوار»اور تفسیر»عیاشی»میں بھی اس مضمون کی بہت سی روایات نقل هوئی ھیں جو تمام اس امر کی حکایت کرتی ھیں کہ مندرجہ بالا آیت»اھل بیت»علیھم السلام کے حق میں نازل هوئی ھے۔

زینب سے آنحضرت (ص) کی شادی[۱۱۷]
زمانہٴ بعثت سے پھلے اور اس کے بعد جب کہ حضرت خدیجه الکبریٰ(ع) نے پیغمبر اسلام سے شادی کی تو حضرت خدیجہ (ع) نے «زید» نامی ایک غلام خریدا،جسے بعد میں آنحضرت کو ھبہ کردیا۔
آپ نے اسے آزاد کردیا۔ چونکہ اس کے قبیلے نے اسے اپنے سے جدا کردیا تھا،لہٰذا رسول رحمت نے اسے اپنا بیٹا بنالیا تھا،جسے اصطلاح میں»تبنّی» کہتے ھیں۔
ظهور اسلام کے بعد زید مخلص مسلمان هوگیا اور اسلام کے ھر اول دستے میں شامل هوگئے اور اسلام میں ایک ممتاز مقام حاصل کرلیا۔ آخر میں جنگ موتہ میں ایک مرتبہ لشکر اسلام کے کمانڈر بھی مقرر هوئے اور اسی جنگ میں شربت شھادت نوش کیا۔
جب سرکار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زید کا عقد کرنا چاھا تو اپنی پھوپھی زاد،بہن زینب بنت حجش «بنت امیہ بنت عبد المطلب سے اس کے لئے خواستگاری کی۔ زینب نے پھلے تو یہ خیال کیا کہ آنحضرت اپنے لئے اسے انتخاب کرناچاہتے ھیں۔لہٰذا وہ خوش هوگئی اور رضا مندی کا اظھار کردیا،لیکن بعدمیں جب اسے پتہ چلا کہ آپ کی یہ خواستگاری تو زید کے لئے تھی تو سخت پریشان هوئیںاور انکار کردیا ۔ اس کے بھائی عبداللہ نے بھی اس چیز کی سخت مخالفت کی۔
یھی وہ مقام تھا جس کے بارے میںوحی الٰھی نازل هوئی او رزینب اور عبداللہ جیسے افراد کو تنبیہ کی کہ جس وقت خدا اور اس کا رسول کسی کام کو ضروری سمجھیں تو وہ مخالقت نھیں کر سکتے۔
جب انھوں نے یہ بات سنی تو سر تسلیم خم کردیا ۔ (البتہ آگے چل کرمعلوم هوگا کہ یہ شادی کوئی عام شادی نھیں تھی بلکہ یہ زمانہٴ جاھلیت کی ایک غلط رسم کو توڑنے کے لئے ایک تمھید تھی کیونکہ زمانہٴ جاھلیت میں کسی باوقار اور مشهور خاندان کی عورت کسی غلام کے ساتھ شادی کرنے کے لئے تیار نھیں هوتی تھی،چاھے وہ غلام کتنا ھی اعلی قدر وقیمت کا مالک کیوں نہ هوتا۔
لیکن یہ شادی زیادہ دیرتک نہ نبھ سکی اور طرفین کے درمیان اخلاقی نا اتفاقیوں کی بدولت طلاق تک نوبت جا پہنچی ۔ اگر چہ پیغمبر اسلام کا اصرار تھا کہ یہ طلاق واقع نہ هو لیکن هوکر رھی۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم نے شادی میں اس نا کامی کی تلافی کے طور پر زینب کو حکم خدا کے تحت اپنے حبالہ عقد میں لے لیا اور یہ بات یھیں پر ختم هوگئی۔
لیکن دوسری باتیں لوگوں کے درمیان چل نکلیں جنھیں قرآن نے مربوط آیات کے ذریعے ختم کردیا۔ اس کے بعد زید اور اس کی بیوی زینب کی اس مشهور داستان کو بیان کیا گیا ھے جو پیغمبر اسلام کی زندگی کے حساس مسائل میں سے ایک ھے اور ازواج رسول کے مسئلہ سے مربوط ھے ۔
چنانچہ ارشاد هوتاھے کہ:»اس وقت کو یاد کرو جب اس شخص کو جسے خدا نے نعمت دے رکھی تھی اور ھم نے ابھی ،اے رسول!اسے نعمت دی تھی او رتم کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو روکے رکھو اور خدا سے ڈرو»۔[۱۱۸]
نعمت خدا سے مراد وھی ہدایت اور ایمان کی نعمت ھے جو زید بن حارثہ کو نصیب هوئی تھی اور پیغمبر کی نعمت یہ تھی کہ آپ نے اسے آزاد کیا تھا اور اپنے بیٹے کی طرح اسے عزت بخشی تھی۔
اس سے معلوم هوتا ھے کہ زید او رزینب کے درمیان کوئی جھگڑا هوگیا تھا اور یہ جھگڑا اس قدرطول پکڑگیا کہ نوبت جدائی اور طلاق تک جاپہنچی ۔ اگرآیت میںلفظ»تقول»کی طرف توجہ کی جائے تو معلوم هوگا کہ یہ فعل مضارع ھے او راس بات پر دلالت کررھا ھے کہ آنحضرت بارھا بلکہ ھمیشہ اسے نصیحت کرتے اور روکتے تھے۔
کیا زینب کا یہ نزاع زید کی سماجی حیثیت کی بناء پر تھا جو زینب کی معاشرتی حیثیت سے مختلف تھی؟کیونکہ زینب کا ایک مشهور ومعروف قبیلہ سے تعلق تھا اور زید آزاد شدہ تھا۔ یا زید کی اخلاقی سختیوں کی وجہ سے تھا؟یا ان میں سے کوئی بات بھی ،نھیں تھی بلکہ دونوں میں روحانی او راخلاقی موافقت اور ھماآہنگی نھیں تھی؟کیونکہ ممکن ھے دو افراد اچھے تو هوں لیکن فکر ونظر اور سلیقہ کے لحاظ سے ان میں اختلاف هوجس کی بناء پر اپنی ازدواجی زندگی کوآئندہ کے لئے جاری نہ رکھ سکتے هوں؟
پیغمبر کی نظر میں تھا کہ اگر ان میاں بیوی کے درمیان صلح صفائی نھیں هوپائی اور نوبت طلاق تک جاپہنچتی ھے تو وہ اپنی پھوپھی زادبہن زینب کی اس نا کامی کی تلافی اپنے ساتھ نکاح کی صورت میں کردیں گے،اس کے ساتھ آپ کو یہ خطرہ بھی لاحق تھا کہ لوگ دو وجوہ کی بناء پر آپ پر اعتراض کریں گے اور مخالفین ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کردیں گے۔
اس سلسلے میں قرآن کہتا ھے :»تم اپنے دل میں ایک چیز کو چھپائے هوئے تھے جسے خدا آشکار کرتا ھے اور تم لوگوں سے ڈرتے هوحالانکہ تمھارا پروردگارزیادہ حق رکھتا ھے کہ اس سے ڈرو»۔[۱۱۹]
پھلی وجہ تویہ تھی کہ زید آنحضرت کا منہ بولا بیٹا تھا،اور زمانہٴ جاھلیت کی رسم کے مطابق منہ بولے بیٹے کے بھی وھی احکام هوتے تھے جو حقیقی بیٹے کے هوتے ھیں ۔ منجملہ ان کے یہ بھی تھا کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے بھی شادی کرنا حرام سمجھاجاتا تھا ۔
دوسری یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیونکراس بات پر تیار هوسکتے ھیں کہ وہ اپنے ایک آزاد کردہ غلام کی
مطلقہ سے عقد کریں جبکہ آپ کی شادی بہت بلندوبالاھے ۔
بعض اسلامی روایات سے معلوم هوتا ھے کہ آپ نے یہ ارادہ حکم خداوندی سے کیا هوا تھا اوربعد والے حصے میں بھی اس بات کا قرینہ موجود ھے۔
اس بناء پر یہ مسئلہ ایک تو اخلاتی اور انسانی مسئلہ تھا اور دوسرے یہ زمانہٴ جاھلیت کی غلط رسموں کو توڑنے کا ایک نھایت ھی موٴثر ذریعہ تھا (یعنی منہ بولے بیٹے کی مطلّقہ سے ازادکردہ غلام کی مطلّقہ سے عقد)۔
مسلم ھے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان مسائل میں نہ تو لوگوں سے ڈرنا چاہئے تھا اور نہ ھی فضا کے مکدر هونے اور زھریلے پروپیگنڈے سے خوف ووحشت کا شکارھی هوجاتے ،خاص کرجب یہ احتمال هوکہ ایک جنجال کھڑاهوجائے گااور آپ اور آپ کے مقدس مشن کی ترقی اور اسلام کی پیش رفت کےلئے رکاوٹ کھڑی هوجائے گی اور یہ بات ضعیف الایمان افراد کو متزلزل کردے گی اور ان کے دل میں شک وشبھات پیدا هوجائیں گے ۔
اس لئے قرآن میںاس سلسلہ کے آخرمیں فرمایا گیا ھے:
» جس وقت زید نے اپنی حاجت کو پورا کرلیا اور اپنی بیوی کو چھوڑدیا تو ھم اسے تمھاری زوجیت میں لے آئے تاکہ منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے مطلّقہ هونے کے بعد مومنین کو ان سے شادی کرنے میں کوئی مشکل نہ هو»۔[۱۲۰]
یہ کام ایسا تھا جسے ا نجام پاجانا چاہئے تھا
«اور خدا کافرمان انجام پاکر رہتا ھے»۔ [۱۲۱]
قابل توجہ بات یہ ھے کہ قرآن ھرقسم کے شک وشبہ کو دور کرنے کےلئے پوری صراحت کے ساتھ اس شادی کا اصل مقصد بیان کرتا ھے جو زمانٴہ جاھلیت کی ایک رسم توڑنے کے لئے تھی یعنی منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ عورتوں سے شادی نہ کرنے کے سلسلے میں یہ خود ایک کلی مسئلہ کی طرف اشارہ ھے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مختلف عورتوں سے شادی کرنا کوئی عام سی بات نھیں تھی بلکہ اس میں کئی مقاصد کا ذکر کرنا مقصود تھا جو آپ کے مکتب کے مستقبل کے انجام سے تعلق رکھتا تھا ۔[۱۲۲]

ثعلبہ
«ثعلبہ بن حاطب انصاری» ایک غریب آدمی تھا،روزانہ مسجد میں آیا کرتا تھا اس کا اصرار تھاکہ رسول اکرم دعا فرمائیں کہ خدا اس کو مالا مال کردے۔ حضور نے اس سے فرمایا:
«مال کی تھوڑی مقدار جس کا تو شکر ادا کر سکے مال کی کثرت سے بہتر ھے جس کا تو شکر ادا نہ کرسکے»۔
کیا یہ بہترنھیں ھے کہ تو خدا کے پیغمبرکی پیروی کرے اور سادہ زندگی بسر کرے ۔
لیکن ثعلبہ مطالبہ کرتا رھا او ر آخر کار اس نے پیغمبر اکرم سے عرض کیا کہ میں آپ کو اس خدا کی قسم دیتا هوں جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ھے۔ اگر خدا نے مجھے دولت عطا فرمائی تو میں اس کے تمام حقوق ادا کروں گا۔چنانچہ آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی۔
ایک روایت کے مطابق زیادہ وقت نھیں گذرا تھا کہ اس کا ایک چچا زاد بھائی جو بہت مال دار تھا ، وفات پاگیا اور اسے بہت سی دولت ملی۔
ایک اور روایت میں ھے کہ اس نے ایک بھیڑ خریدی جس سے اتنی نسل بڑھی کہ جس کی دیکھ بھال مدینہ میں نھیں هوسکتی تھی ۔ اس لئے انھیں مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں میں لے گیا اور مادی زندگی میں اس قدر مصروف هوگیا کہ نماز با جماعت تو کیا نماز جمعہ میں بھی نہ آتا تھا ایک مدت کے بعد رسول اکرم نے زکوٰهوصول کرنے والے عامل کو اس کے پاس زکوٰه لینے کے لئے بھیجا لیکن اس کم ظرف کنجوس نے نہ صرف خدائی حق کی ادائیگی میں پس وپیش کیا بلکہ شرع مقدس پر بھی اعتراض کیا اور کھا کہ یہ حکم جزیہ کی طرح ھے یعنی ھم اس لئے مسلمان هوئے تھے کہ جزیہ دینے سے بچ جائیں۔ اب زکوٰه دینے کی شکل میں ھم میں اور غیر مسلموں میں کون سافرق باقی رہ جاتا ھے۔ حالانکہ اس نے نہ جزیہ کا مطلب سمجھا تھا اور نہ زکوٰه کا اور اگر اس نے سمجھا تھا تو دنیا پرستی جو اسے حقیقت کے بیان او راظھار حق کی اجازت نھیں دیتی تھی،غرض جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی باتیں سنیں تو فرمایا:
«یا ویح ثعلبہ ! یا ویح ثعلبہ»۔
«وائے هو ثعلبہ پر ھلاکت هو ثعلبہ پر»۔[۱۲۳]
(منتخب از تفسیر نمونه)
—————————-
[۱۱۶] ان کے نام او ران کی کتاب کی خصوصیات صفحہ ۔۴۶ ۔سے لیکر صفحہ۔۷۶۔ تک تفصیل سے بیان کی گئی ھے ان شخصیتوں میں سے یہ زیادہ مشهور ھیں ۔
۱۔مسلم بن حجاج نیشاپوری،موٴلف صحیح مسلم جو نامور شخصیت ھیں اور ان کی حدیث کی کتاب اھل سنت کی چھ قابل اعتماد صحاح میں سے ھے ملا حظہ هو مسلم،ج۔۷۔ص۔۱۲۰طبع مصر زیر اہتمام محمد علی صبیح۔
۲۔احمد بن حنبل نے اپنی»مسند»میں لکھاھے ملاحظہ هو ،ج۔۲۔ص۔۱۸۵۔طبع مصر۔
۳۔طبری نے اپنی مشهور تفسیر میں اسی آیت کے ضمن میں لکھا ھے۔ دیکھئے ۔ج۔۳۔ص۔۱۹۲۔طبع میمنیہ۔ مصر۔
۴۔حاکم نے اپنی»مستدرک»میںلکھا ھے،دیکھئے۔ج۔۳۔ص۔۱۵۔مطبوعہ حیدرآباد دکن۔
۵۔حافظ ابو نعیم اصفھانی،کتاب «دلائل النبوه»۔ص۔۲۹۷۔مطبوعہ حیدرآباد دکن۔
۶۔واحدی نیشاپوری،کتاب»اسباب النزول»۔ص۔۷۴۔طبع ہند۔
۷۔فخر رازی، نے اپنی مشهور تفسیر کبیر میں لکھا ھے، دیکھئے۔ ج۔۸۔ ص۔۸۵۔ طبع بھیہ،مصر۔
۸۔ابن اثیر،»جامع الاصول»جلد۔۹۔ص۔۴۷۰۔طبع سنتہ المحمدیہ،مصر۔
۹۔ابن جوزی»تذکره الخواص» صفحہ۔۱۷۔طبع نجف۔
۱۰۔قاضی بیضاوی،نے اپنی تفسیر میں لکھا ھے،ملاحظہ کریں۔ ج۔۲۔ ص۔۲۲۔ طبع مصطفی محمد،مصر۔
۱۱۔آلوسی نے تفسیر»روح المعانی»میں لکھا ھے۔ دیکھئے ۔ج۔ ۳۔ص۔۱۶۷۔طبع منیریہ۔ مصر۔
۱۲۔معروف مفسر طنطاوی نے اپنی تفسیر «الجواھر»میں لکھا ھے۔۔ ج۔۲۔ ص۔ ۱۲۰۔ مطبوعہ مصطفی الیابی الحلبی،مصر۔
۱۳۔زمخشری نے تفسیر»کشاف»میں لکھا ھے،دیکھئے۔ج۔۱۔ص۔۱۹۳،مطبوعہ مصطفی محمد،مصر۔
۱۴۔حافظ احمد ابن حجر عسقلانی ،»الاصابه»۔ج۔۲۔ص۔۵۰۳،مطبوعہ مصطفی محمد، مصر۔
۱۵۔ابن صباغ،»فصول المھمه»۔ص۔۱۰۸۔مطبوعہ نجف۔
۱۶۔علامہ قرطبی،»الجامع الاحکام القرآن»۔ج۔۳۔ص۔۱۰۴۔مطبوعہ مصر ۱۹۳۶۔
[۱۱۷] اکثر مفسرین و مورخین اسلامی کے بقول سورہ احزاب کی آیات ۳۶تا۳۸/اس سلسلے میں نازل هوئی ھیں۔
[۱۱۸] سورہٴ احزاب آیت ۳۷۔
[۱۱۹] سورہٴ احزاب آیت۳۷۔
[۱۲۰] سورہ احزاب آیت ۳۷۔
[۱۲۱] سورہ احزاب آیت ۳۷۔
[۱۲۲] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زینب کے ساتھ شادی کی داستان قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ بیان کردی ھے اور یہ بھی واضح کردیا ھے کہ اس کا ہدف منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کے ذریعے دور جاھلیت کی ایک رسم کو توڑنا تھا، اس کے باوجود دشمنان اسلام نے اسے غلط رنگ دے کر ایک عشقیہ داستان میں تبدیل کردیا اس طرح سے انهوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات کو آلودہ کرنے کی ناپاک جسارت کی ھے اور اس بارے میں مشکوک اور جعلی احادیث کا سھارالیا ھے ان داستانوں میں ایک یہ بھی ھے کہ جس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زید کی احوال پرسی کے لئے اس کے گھرگئے اور جو نھی آپ نے دروازہ کھولا تو آپ کی نظر زینب کے حسن وجمال پر جا پڑی تو آپ نے فرمایا :
«سبحان اللہ خالق النور تبارک اللہ احسن الخالقین»
«منزہ ھے وہ خدا جو نور کا خالق ھے اور جاویدو بابرکت ھے وہ اللہ جو احسن الخالقین ھے»۔
ان لوگوں نے اس جملے کو زینب ۺکے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لگاؤ کی دلیل قراردیا ھے، حالانکہ ،عصمت ونبوت کے مسئلہ سے قطع نظر بھی اس قسم کے افسانوں کی تکذیب کے لئے واضح شواہد ھمارے پاس موجود ھیں :
پھلا یہ کہ حضرت زینب، رسول پاک کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور خاندانی ماحول میں تقریباً آپ کے سامنے پلی بڑھی تھیں اور آپ ھی نے زید کے لئے ان کی خواستگاری کی تھی اگر زینب حد سے زیادہ حسین تھیں اور بالفرض اس کے حسن وجمال نے پیغمبر اکرم کی توجہ کو اپنی طرف جذب کرلیا تھا تونہ تو اس کا حسن وجمال ڈھکا چھپا تھا اور نہ ھی اس ماجرے سے پھلے ان کے ساتھ آنحضرت کا عقد کرنا کوئی مشکل امر تھا بلکہ اگر دیکھا جائے تو زینب کو زید کے ساتھ شادی کرنے سے دلچپی نہ تھی ، بلکہ اس بارے میں انهوں نے اپنی مخالفت کا اظھار صراحت کے ساتھ بھی کردیا تھا اور وہ اس بات کو کا ملاً ترجیح دیتی تھیں کہ زید کی بجائے رسول اللہ کی بیوی بنیں، کیونکہ جب آنحضرت زید کےلئے زینب سے رشتہ دینے آئے تو وہ نھایت خوش هوگئیں، کیونکہ وہ یہ سمجھ رھی تھیں کہ آپ ان سے اپنے لئے خواستگاری کی غرض سے تشریف لائے ھیں ،لیکن بعد میں وحی الٰھی کے نزول اور خدا وپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے هوئے زید کے ساتھ شادی کرنے پر راضی هوگئیں۔ تو ان حالات کو سامنے رکھتے هوئے توھم کی کونسی گنجائش باقی رہ جاتی ھے کھیں آپ زینب کے حالات سے بے خبر تھے؟ یا آپ ان سے شادی کی خواہش رکھتے هوئے بھی اقدام نھیں کرسکتے تھے؟
دوسرا یہ کہ جب زیدنے اپنی بیوی زینب کو طلاق دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف رجوع کیا تو آپ نے بار باراسے نصیحت کی اور اطلاق دینے کے لئے روکا اور یہ چیز بجائے خود ان افسانوں کی نفی کا ایک اورشاہدھے ۔
پھر یہ کہ خود قرآن صراحت کے ساتھ اس شادی کا مقصد بیان کرتا ھے تاکہ کسی قسم کی دوسری باتوں کی گنجائش باقی نہ رھے۔
چوتھا امر یہ ھے کہ قرآنی آیت میں خداو ندعا لم اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرماتاھے کہ زید کی مطلقہ بیوی کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی خاص بات تھی جس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں سے ڈرتے تھے، جبکہ انھیں صرف خدا سے ھی ڈرنا چاہئے۔
خوف خدا کا مسئلہ واضح کرتا ھے کہ یہ شادی ایک فرض کی بجا آوری کے طور ر انجام پائی تھی کہ خدا کی ذات کے لئے شخصی معاملات کو ایک طرف رکھ دینا چاہئے تاکہ ایک خدائی مقدس ہدف پورا هوجائے، اگرچہ اس سلسلے میں کو ردل دشمنوں کی زبان کے زخم اور منافقین کی افسانہ طرازی کا پیغمبر کی ذات پر الزام ھی کیوں نہ آتا هو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم خدا کی اطاعت اور غلط رسم کو توڑنے کی پاداش میں یہ ایک بہت بڑی قیمت ادا کی ھے اور اب تک کررھے ھیں ۔
لیکن سچے رھبروں کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آجاتے ھیں ، جن میں انھیں ایثار اور فداکاری کا ثبوت دینا پڑتاھے ، اور وہ اس قسم کے لوگوں کے اتھامات اور الزامات کا نشانہ بنتے رہتے ھیں تاکہ اس طرح سے وہ اپنے اصل مقصد تک پہنچ جائیں
البتہ اگر پیغمبر گرامی قدر نے زینب کو بالکل ھی نہ دیکھا هوتا اور نہ ھی پہچانا هوتا اور زینب نے بھی آپ کے ساتھ ازدواج کے بارے میں رغبت کا اظھار نہ کیا هوتا اور زید بھی انھیں طلاق دینے پر تیار نہ هوتے (نبوت وعصمت کے مسئلہ سے ہٹ کر)پھر تو اس قسم کی گفتگو اور توھمات کی گنجائش هوتی،لیکن پیغمبر کی تو وہ دیکھی دکھائی تھیںلہٰذا ان تمام امکانات کی نفی کے ساتھ ان افسانوں کا جعلی اور من گھڑت هونا واضح هو جاتا ھے۔
علاوہ ازیں نبی اکرم کی زندگی کا کوئی لمحہ یہ نھیں بتاتا کہ آپکو زینب سے کوئی خاص لگاؤ او ررغبت هو،بلکہ دوسری بیویوں کی نسبت ان سے کوئی رغبت رکھتے تھے اور ان افسانوں کی نفی پر یہ ایک اور دلیل ھے ۔
[۱۲۳] مفسرین کے درمیان مشهور ھے کہ سورہ توبہ کی آیت ۷۵تا ۷۸ اس واقعہ کو بیان کیا گیا ھے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.