واقعہ غدیر

خلاصہ :

 

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا آخری سال تھا»حجه الوداع «کے مراسم جس قدر باوقار و پرشکوہ هو سکتے تھے اس قدر پیغمبر اکرم کی ھمراھی میں اختتام پذیر هوئے۔ سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے ابھی ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کررھی تھی ۔ اصحاب پیغمبر جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اس عظیم نعمت سے فیض یاب هوئے او راس سعادت کے حاصل هونے پر جامے میں پھولے نھیں سماتے تھے۔

متن:

 

نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزازوافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ھمراہ تھے۔
سرزمین حجاز کا سورج دروں اور پھاڑوںپر آگ برسارھا تھا لیکن اس سفرکی بے نظیر روحانی مٹھاس تمام تکلیفوں کو آسان بنارھی تھی۔ زوال کا وقت نزدیک تھا۔ آہستہ آہستہ «حجفہ «کی سرزمین او راس کے بعد خشک اور جلانے والے»غدیرخم» کے بیابان نظر آنے لگے۔
در اصل یھاں پر ایک چوراھا ھے جو حجاز کے لوگوں کوایک دوسرے سے جدا کرتا ھے۔ شمالی راستہ مدینہ کی طرف دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف،تیسرا مغربی ممالک او رمصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ھے یھی وہ مقام ھے جھاں پر آخری مقصد او راس عظیم سفر کااھم ترین کام انجام پذیر هوتا تھا تاکہ مسلمان پیغمبر کی اھم ذمہ داریوںمیںسے ان کا آخری حکم جان کر ایک دوسرے سے جداهوں ۔
جمعرات کا دن تھا اورہجرت کا دسواں سال۔ آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے ان کے ھمراھیوں کو ٹھھر جانے کا حکم دیا گیا۔ مسلمانوں نے بلندآواز سے ان لوگوں کو جو قافلے کے آگے چل رھے تھے واپس لوٹنے کے لئے پکارا اوراتنی دیر کے لئے ٹھھر گئے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ جائیں۔ آفتاب خط نصف النھار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موٴذن نے «اللہ اکبر «کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظھر پڑھنے کی دعوت دی ۔ مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار هوگئے ۔ لیکن فضاء اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ مجبور تھے کہ وہ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی سر کے اوپر لے لیں،ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رھی تھیں۔
اس صحراء میں کوئی سائبان نظر نہ آتا تھا اور نہ ھی کوئی سبزہ یاگھاس صرف چند بے برگ وبار بیابانی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رھے تھے کچھ لوگ انھی چند درختوں کا سھارا لئے هوئے تھے اور انهوں نے ان برہنہ درختوں پر ایک کپڑاڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان سا بنا رکھا تھا لیکن گرم هوا اس سائبان کے نیچے سے گزرتی هوئی سورج کی جلانے والی گرمی کو اس سائبان کے نیچے بھی پھیلا رھی تھی۔ بھر حال ظھر کی نماز پڑھ لی گئی۔

خطبہٴ غدیر
مسلمان ارادہ کررھے تھے کہ فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لیں جو انھوں نے اپنے ساتھ اٹھارکھے تھے لیکن رسول اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوندتعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار هوں جسے ایک مفصل خطبے کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دور تھے وہ پیغمبر کا ملکوتی چھرہ اس عظیم اجتماع میں دور سے دیکھ نھیں پارھے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا۔پیغمبر اس کے اوپر تشریف لے گئے۔پھلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے هوئے یوں خطاب فرمایا:میں عنقرب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے هوئے تمھارے درمیان سے جارھا هوں ،میں بھی جوابدہ هوںاورتم بھی جوابدہ هو ،تم میرے بارے میں کیا گواھی دوگے لوگوں نے بلند آواز میں کھا :
«ھم گواھی دیں گے کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواھی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ھماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے»۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث هونے کی گواھی نھیں دیتے؟
سب نے کھا:کیوں نھیں ھم سب گواھی دیتے ھیں۔
آپ نے فرمایا: خداوندگواہ رہنا۔
آپ نے مزید فرمایا:اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رھے هو؟
انهوںنے کھا: جی ھاں۔
اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری هوگیا۔ سوائے هوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نھیں دیتی تھی ۔ پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمھارے درمیان دوگرانمایہ اور گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارھا هوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کھا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ دو گرانمایہ چیزیں کونسی ھیں؟
تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پھلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ھے جو ثقل اکبر ھے۔ اس کا ایک سرا تو پروردگار عالم کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سراتمھارے ھاتھ میں ھے،اس سے ھاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ هو جاؤگے۔ دوسری گرانقدر یادگار میرے اھل بیت (ع) ھیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ھے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں هوں گے یھاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیںگے۔
ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ھی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ھلاک هو جاؤگے۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاھیں دوڑارھے ھیں گویا کسی کو تلاش کر رھے ھیں جو نھی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً ان کا ھاتھ پکڑلیا اور انھیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کے نیچے کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انھیں دیکھ کر پہچان لیاکہ یہ تو اسلام کا وھی سپہ سالار ھے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نھیں دیکھا۔
اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اوربلند هوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:
«ایھا الناس من اولی الناس بالموٴمنین من انفسھم۔»
یعنی اے لوگو! بتاؤ وہ کون ھے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولیت رکھتا ھے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ھیں۔
تو پیغمبر نے فرمایا: خداا میرا مولا اوررھبر ھے اور میں مومنین کا مولااوررھبر هوں اور ان کے اوپر ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا هوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے سے مقدم ھے)۔
اس کے بعد فرمایا:
«فمن کنت مولاہ فہذا علی مولاہ»۔
«یعنی جس جس کا میں مولاہ هوں علی (ع) بھی اس اس کے مولاہ اوررھبر ھے»۔
پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی او ربعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دھرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:۔
«اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ واحب من احبہ و ابغض من ابغضہ و انصرمن نصرہ واخذل من خذلہ، وادرالحق معہ حیث دار۔»
یعنی بار الٰھا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ او رجو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی رکھ۔ جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ۔ جو اس کی مدد کرے تو اس کی مددکر ۔ جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مددسے محروم رکھ اور حق کو ادھرپھیردے جدھر وہ رخ کرے۔
اس کے بعد فرمایا:
» تمام حاضرین آگاہ هوجائیں اس بات پر کہ یہ ان کی ذمہ داری ھے کہ وہ اس بات کوان لوگوں تک پہنچائیں جو یھاں پر اور اس وقت موجود نھیں ھیں «۔

روز اکمال دین
پیغمبر کا خطبہ ختم هوگیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینے میں نھائے هوئے تھے۔ دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رھا تھا۔
ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نھیں هوئی تھیں کہ جبرئیل (ع) امین وحی لے کر نازل هوئے اور تکمیل دین کی پیغمبر کو بایں الفاظ بشارت دی:
«الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی «۔[۱۰۹]
«آج کے دن میں نے تمھارے لئے تمھارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا»۔
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر نے فرمایا:
«اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمه ورضی الرب برسالتی والولایهلعلی من بعدی»۔
«ھر طرح کی بزرگی وبڑائی خداھی کے لئے ھے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ھم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد کے لئے علی (ع) کی ولایت کے لئے خوش هوا۔»
امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام کی ولایت کا پیغمبر کی زبان مبارک سے اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور برپا هوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی (ع) کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کررھے تھے ۔ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ھیں کہ انهوں نے کھا:
«بخٍ بخٍ لک یا بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولائی و مولاکل موٴمن و موٴمنهٍ۔»
«مبارک هو ! مبارک هو! اے فرزند ابی طالب کہ آپ(ع) میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رھبر هوگئے»۔
اس وقت ابن عباس نے کھا :بخدا یہ عہد وپیمان سب کی گردنوں میں باقی رھے گا»۔[۱۱۰]

—————–
[۱۰۹] سورہٴ مائدہ آیت ۳۔
[۱۱۰] اس سلسلے میں مزید آگھی کے لئے کتاب الغدیر، علامہ امینیۺ ،احقاق الحق ،قاضی نوراللہ شوشتریۺ ،المراجعات شرف الدین ۺ اور دلائل الصدق محمدحسین مظفر پر رجوع کریں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.