دور حاضر میں دینی تحقیق کے نۓ نۓ وسائل اور نۓ نۓ شبہات

ملک کے دینی محقّقین کا دوسرا جلسے کا عنوان تھا (( دور حاضر میں دینی تحقیق کے نۓ وسائل اور نۓ شبہات)) جس کو۱۳۷۹ کے اردیبہشت مہینہ  میں منعقد کیا گیا ۔ ۔ جس میں کثیر تعداد میں علماء و دانشوروں اور علوم دین کے محقّقین اور مدارس و یونیورسٹیز کے اساتذہ نے شرکت فرمائی یہ جلسہ دینی محقّقین کے سکریٹری کی بلند ہمّتی اور صوبۂ قم کے »دفتر فرھنگ و ارشاد» کی مدد سے قنمبر یونیورسٹی کے شیخ مفید حال میں منعقد کیا گیا۔

جلسہ کی ابتداء میں صوبۂ قم کے» فرھنگ و ارشاد» کے مدیر اعلی نے حاضرین جلسہ کو خیر مقدم کرتے ہوۓ اسطرح کے جلسات کے انعقاد کے متعلق فرمایا: کہ کئی سوتحقیقی مراکز کی ایک عظیم الشان اور بڑی قوت، جو تحقیقی امور میں اپنا آپ کو دلبستہ کۓ ہوۓ ہیں دین کے مختلف شعبوں میں تحقیقی کام انجام دے رہے ہیں ان کو چاہئیے کہ وہ ایک دوسرے سے ہم آہنگی اور تدبیر کے ساتھ اور جتنی بھی جلدی ہو سکے اپنے آپ کو دور حاضر کی ضرورتوں کے تحت آمادہ کریں اور دور حاضر میں اٹھنے والے سوالات اور اس جدید نسل سے ہم آہنگی  کریں، اسی انگیزے اور تحقیقات دینی کی حمایت نے »مجموعۂ شوری برنامہ ریزی »کے دینی محقّقین کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ان موضوعات کو اخترع کریں جو مراکز دینی کے محقّقین کے درمیان مختلف گرایش علمی میں مشترک ہیں۔ اس جہت سے جلسۂ اوّل میں ان موضوعات کو زیر بحث لایا گیا جن کا دین سے زیادہ سروکار تھا جیسا کہ دینی تحقیق کی مشکلات، اور دینی تحقیق میں جن چیزوں کی ضرورت ہے ان کو بیان کیا گیا اور اس دوسرے جلسے میں(( نۓ نۓ اشکالات اور تحقیق کے نۓنۓ مسائل ووسائل کے متعلق بحث و گفتگو ہوئی۔

ملکی محقّقین کی مجلس مشورت و برنامہ ریزی کے سکریٹری نے اپنی تقریر میں نۓ نۓ شبہات و اشکالات کی تاریخ پیدائش کے متعلق اور متدیّن مسؤلین کو مشکلات سے نمٹنے کے متعلق توضیح دی اور بیان کیا کہ دینی محقّقین کے دوسرے جلسے کے منعقد کرنے کی اصل وجہ کیا ہے اور یہ بھی بیان کیا کہ دینی محقّقین کے سکریٹری نے مندرجہ ذیل موارد کو اپنا ھدف قرار دیا ہے:

·       محقّقین و تحقیقی امور انجام دینے والے مراکز کو بنحو احسن اطّلاع پہونچانا۔

·       اطّلاع رسانی کے ذریعہ مراکز تحقیق اور محقّقین کے درمیان ارتباط اور ہمآہنگی ایجاد کرنا۔

·       علوم دینی کے ممتاز محقّقین کی حمایت کرنا۔

·       دینی تحقیقات کی اولویت کو معیّن کرکے اسکو جہت دینا۔

ان اہداف تک پہونچ نے کے لئےٹائم ٹیبل اور اس کے انجام دہی کے طریقوں پر اس طرح کے نظریات پیش کئے گئے:

·       اندرونی اور بیرون ملک کے علماء کے ساتھ علمی جلسات کا منعقد کرنا تاکہ سکریٹری کے اہداف کو پورا کرنے میں مفید ثابت ہوں۔

·       ایک مجلہ کا منتشر کرنا جس کے ذریعہ دینی محققین تک اطلاع رسانی کا کام انجام دیا جا سکے۔

·       ہر سال دینی محققین کی کانفرنس کا منعقد کارنا جس میں ضروری مباحث کو بیان کیا جاے۔

·       اطلاع رسانی کی جدید ترین مشین نری کا استعمال کرنا مثلا انٹرنیٹ، کمپیوٹر اورمیدانی تحقیق۔

·       تحقیق دینی انجام دینے والے تمام اداروں اور دینی امور میں تحقیق کرنے والے محققین کو اطلاع رسانی کی خدمت انجام دینا۔

اس کانفرنس کے دوسرے مقرر» فرہنگ و ارشاد» کے نائب وزیر عالی جناب احمد مسجد جامعی تھے انہوں نے دینی تحقیق کے تمرینی پہلوں پر تاکید کر تےہوے سماج کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوے ضمنا یہ بھی کہا کہ: دینی اور روایتی حوزہ کی کار کردگی میں  دینی تحقیقی کی کار کردگی ایک اصلی محور کے عنوان سے زمانۂ قدیم سے مطرح ہے اور اگر ہم دینی حوزہ میں دینی تحقیق  کو انجام دینا چاہتے ہیں تو ہمیں سماج کی ضرورتوں کو مدّ نظر رکھنا ہوگا۔

جناب مسجدی نے اپنی تقریر کے ایک حصّہ میں بیان کیا کہ دینی تحقیق میں نئی مشین نری اور نئی روشوں کے استعمال کرنے کو مخاطبین کے اعتبار سے بیان کیا گیا ہے اور انہوں نےمزید کہا: کہ ہمیں چاہیۓ کہ ہم دینی تحقیق میں ایک نئی فضا کو قائم کریں اور اس امر کے مراکز کے سرپرستوں میں وسعت دیں۔ اور دین کے اجزاء کو وسعت دیں۔

انہوں نے مزید کہا: اس وقت بھی تعلیمی اور سماجی تحقیق  کی بے حد ضرورت ہے جو سماج کے مختلف پہلووں کے معضلات کی تحقیق کرے اور ہمیں چاہیۓ کہ سماج کی ضروررتوں اور دینی خدشات کی  شناخت کریں اور انکی طرف زیادہ توجہ مبذول کریں اور دینی محقّقین وہ افراد ہیں جو اس طرح کے خدشات کو دور کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں۔

اس کانفرانس میں سید عباس قائم مقامی نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ ان کے مقالے کا عنوان تھا (( تفسیر متن، تفہیم ظہور یا تاویل)) انہوں نے اس موضوع کے ضمن میں تعلیمات غرب میں علم تفسیر کی پیدائش کے متعلق گفتگو کی اور اسکے بعد انہوں نے تعلیمات اسلام میں تفسیر متن کے نقطۂ نگاہ سے ظاہری تفہیم اور تاویل کے نظریہ کو بیان کیا اور انہوںے مزید کہا: ظاہری تفہیم علم اصول کے دائرے میں اور تفہیم تاویل علم عرفان کے دائرے میں قابل بیان ہے کہ جس کو سب سے پہلے محی الدین عربی نے  اپنی میراث علمی میں پرورش دی ہے۔

ان کے بعد کانفرینس کے مقرّر، محقّق اور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مہدی محسینیان راد، تھے جنہوں نے تحقیق کے متنوّع طریقوں پر گفتگو کی۔ انہوں نے ہمارے ملک کی یونیورسٹی کے تفہمی اور مثبت گرائیکے رویّوں کے درمیان کشمکش کی تنقید کی، اور کہا : کہ تحقیق کے شیوے اپنی اپنی جگہ پر کارآمد ہیں اور مسائل کا حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تحقیق کے کلّی قائدے اس بات پر قادر ہیں کہ وہ اوزار کےاس صندوق کے مثل ہوں جن میں سے ہر ایک وسیلہ کے ذریعہ ایک معضل تحقیقی کو حل کیا جا سکتا ہے۔

اس کانفرنس کے ایک اور مقرّر حجّت الاسلام صادقی رشاد تھے کہ جنہوں نے دینی تحقیق کے نقصانات پر بحث کی اور انہیں تین نظریوں میں تقسیم کیا:

۱-     جس میں پہلا نظریہ سنّتی ہے اور جو شدّت کے ساتھ گذشتگان کی تعلیم سے متمسّک ہے اور انکو مقدّس جانتا ہے۔

۲-     دوسرا نظریہ تجدّد گرائی ہےجو نۓ نظریوں کے اقتباس میں کسی طرح کی حد و حدود کا قائل نہی ہے اور جس نے تمام حدود کو توڑ دیا ہے اور اس کے اندر تنقید اور صحیح و غلط کو تمیز دینے کی طاقت نہی ہے۔

۳-     تیسرا نظریہ واقع گرا ہے جو  اپنے گذشتگان کے عقیدوں کو بھی نقد کرتا ہے اور جدید نظریوں کو بھی اور ماضی اور حال کے نظریوں میں سے مثبت اور مفید عناصر کو اخذ کرتا ہے اور منفی عناصر کو حذف کر دیتا ہے۔

کانفرانس میں عصر کے بعد  اطّلاع رسانی کے مسؤل استاد محمد سمیعی نے انٹرنیٹ اوردینی تحقیق اوراسکی اہمیت کے متعلق گفتگو کی اور کہا: انٹر نیٹ کے وسیلے سے عظیم امکانات محقّق کے اختیار میں قرار پاتے جاتے ہیں جن میں سے کمپیوٹر کے ذریعہ ترجمہ کرنا جو اروپائی زبانوں میں رواج بن چکا ہے کچھ مقدار میں عربی زبان بھی اس فضا میں وارد ہو گئی ہے۔

 اس کانفرنس میں استاد محمد مجتہد شبستری نے تقریر کی انہوں نے بالخصوص ((ایمان اور دین کی تاریخی شناخت)) کے متعلق گفتگو کی اور صدر اسلام میں ایمان کی اہمیت اور ثقافت شفاہی کو ثقافت کتابی میں تبدیل کرنے اور اسکے نتائج پر گفتگو کی اور کہا: صدر اسلام کے ایمان  کی معرفت حاصل کرنے کے لۓ ہم محتاج ہیں کہ دین کی تاریخی شناخت کریں  اور اس کے نتیجہ میں ہم صرف نظریہ دے سکتے ہیں اس سے آگے کچھ نہی کہ سکتے البتتہ یہ کام بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔

 اس کانفرانس کے ایک مقرّر استاد مصطفی ملکیان تھے کہ حنہوں نے دینی شبہات کے درجہ بندی کے متعلق گفتگو کی اور شبہات کو اعتقادات، اخلاقیات اور عبادت کے دائرے میں محدود کرتے ہوے ان کو آٹھ حصّوں میں تقسیم کیا اور انکی صراحت کے ساتھ تشریح کی اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کیا کہ کوئی بھی درجہ بندی دینی شبہات کے متعلق آخری درجہ بندی قرار نہی دی جا سکتی۔

کانفرانس کے آخری مقرّر حجّت الاسلام احمد مبلّغی تھے کہ حنہوں نے اپنی تقریر تحقیق تحلیلی ثابت اور متغیّر کے متعلق انجام دی، انہوں نے ثابت اور متغیّر مسلۂ کو دور حاضر کے چار بزرگ و برجستہ علماء کی نقطۂ نظر کے اعتبار سے بیان کیا جیسا کہ امام خمینی، علّامہ طباطبائی، شہید محمد باقر الصدر اور ڈاکٹر علی شریعتی ہیں انہوں نے کہا: امام خمینی نے مشکلات ثابت اور متغیّر کے گروہ کو ثبات اور تغیر کے موضوع کےدائرے میں وسعت دی۔

علّامہ طباطبائی نے بھی طبیعی ضروریات کے دائرے میں اور ثابت اور متغیّر ضرورتوں اور وقتی مشکل کہ کر حل کیا ہے۔

شہید صدر نے بھی قائدۂ  فراغ کے دائرے میں کہا: کہ حاکم اسلامی قادر ہے کہ وہ اپنے حدود میں رہ کر آنے والی مشکلات کے بارے میں مشورت کرے انہوں نے ذکر کی گئی مشکلات کا حل اسطرح پیش کیا۔

ڈاکٹر شریعتی نے بھی ثابت اور متغیّر کو ذو بطون ہونے کے نظریہ کے ذریعہ چارہ اندیشی کی ہے اس معنی میں کہ جس قدر بھی انسان کی معرفت بڑھتی چلی جاۓگی دین کے نۓ روپ معلوم ہوتے چلے جائیں گے قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کانفرانس کے درمیان ملک کے دینی محقّقین کے سکریٹری کے دفتر سے منتشر ہوۓ دو اثر کانفرینس میں حاضرین کی خدمت میں عرض کۓ گۓ جن میں پہلا اثر ان مقالوں پر مشتمل تھا جنہیں اس کانفرینس کے لۓ منتخب کیا گیا تھا اور ان میں سے بعض مقالات کو کانفرینس میں پڑھا بھی گیا اور دوسرا اثر ((موانع، مشکلات اور دینی تحقیق کی ضرورتوں کے متعلق تھا)) یہ اثر پہلی کانفرنس کے مقالے اور تقریروں پر مشتمل تھاآثار کو تقدیم کر نے کے بعد کانفرنس کے حاضرین کو دینی تحقیق کے سکریٹری دفتر کی ہمّت کی بدولت اور تحقیقی اداروں کی مشارکت سے تحقیقی نتائج کی نمائش کرائی گئی اور حاضرین نے انہیں اپنی توجہ کامورد قرار دیا۔

 اس کانفرانس میں انتخاب شدہ مقالا ت کو بعنوان ((دینی محقّقین بالخصوص دوسری ملکی دینی محقّقین کی کانفرنس )) اور اس کانفرنس کی تقاریروں اور پریس کانفرنسوں کے مجموعہ کو بنام ((دینی تحقیق، دور حاضر میں،اور نۓ وسائل اور نۓ شبہات)) کے نام سے چاپ کیا گیا۔

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.